عشق مرہون حکایات و گماں بھی ہوگا
واقعہ ہے تو کسی طور بیاں بھی ہوگا
دل عطیہ کہیں کرتا تو پریشاں ہوگا
خیر و خوبی سے ہی ہوگا وہ جہاں بھی ہوگا
ایک دن دیکھنا رک جائیں گے دریا سارے
ایک دن دیکھنا یہ دشت رواں بھی ہوگا
آپ دنیا کو محبت کی دوا بیچتے ہیں
آپ کے پاس علاج غم جاں بھی ہوگا
ایک دن آ ہی ملیں گے مرے بچھڑے ہوئے لوگ
ختم اک روز تو یہ کار جہاں بھی ہوگا
دل بھی ویسا ہی ہے کیفیت جاں ہے جیسی
حال بدلا تو یہی رقص کناں بھی ہوگا
شدت ہجر ہے محسوس تو ہوگی ارشدؔ
بوجھ سینے پہ اگر ہے تو گراں بھی ہوگا
غزل
عشق مرہون حکایات و گماں بھی ہوگا
ارشد عبد الحمید