ہوائے حرص و ہوس سے مفر بھی کرنا ہے
اسی درخت کے سائے میں گھر بھی کرنا ہے
انا ہی دوست انا ہی حریف ہے میری
اسی سے جنگ اسی کو سپر بھی کرنا ہے
چل آ تجھے کسی محفوظ گھر میں پہنچا دوں
پھر اس کے بعد مجھے تو سفر بھی کرنا ہے
یہی نہیں کہ پہنچنا ہے آسمانوں پر
دعائے وصل تجھے اب اثر بھی کرنا ہے
ہمیں تو شمع کے دونوں سرے جلانے ہیں
غزل بھی کہنی ہے شب کو بسر بھی کرنا ہے
غزل
ہوائے حرص و ہوس سے مفر بھی کرنا ہے
ارشد عبد الحمید