گھٹائیں گھرتی ہیں بجلی کڑک کے گرتی ہے
یہ کس کی پیاس ہے جو بے قرار پھرتی ہے
عجیب خوف کی بستی ہے یہ دیا ہی نہیں
ہوا بھی خواہش دل کو چھپائے پھرتی ہے
نظر نہ پھیر ندامت کو سیر ہونے دے
یہ بدلی دل میں کہاں روز روز گھرتی ہے
سمیٹ لیتی ہے ہر شے کو اپنے پیکر میں
شبیہ کس کی ہے جو پتلیوں میں پھرتی ہے
حویلی چھوڑنے کا وقت آ گیا ارشدؔ
ستوں لرزتے ہیں اور چھت کی مٹی گرتی ہے
غزل
گھٹائیں گھرتی ہیں بجلی کڑک کے گرتی ہے
ارشد عبد الحمید