میرے اشعار تموج پہ جو آئے ہوئے ہیں
آب حیرت سے یہ مضمون اٹھائے ہوئے ہیں
شوخیاں کام نہ آئیں تو حیا دھر لے گی
اس نے آنکھوں کو کئی داؤ سکھائے ہوئے ہیں
کچھ ستارے مری پلکوں پہ چمکتے ہیں ابھی
کچھ ستارے مرے سینے میں سمائے ہوئے ہیں
اب وہ انسان کہاں جن سے فرشتے شرمائیں
ہم تو انسان کا بس بھیس بنائے ہوئے ہیں
غیر کو جمع کرو دشمن جاں کو بلواؤ
دوستو ہم کسی اپنے کے ستائے ہوئے ہیں
غزل
میرے اشعار تموج پہ جو آئے ہوئے ہیں
ارشد عبد الحمید