اندھا سفر ہے زیست کسے چھوڑ دے کہاں
الجھا ہوا سا خواب ہے تعبیر کیا کریں
اکرم نقاش
بارہا تو نے خواب دکھلائے
بارہا ہم نے کر لیا ہے یقیں
اکرم نقاش
بدن ملبوس میں شعلہ سا اک لرزاں قرین جاں
دل خاشاک بھی شعلہ ہوا جلتا رہا میں بھی
اکرم نقاش
ہوا بھی چاہئے اور روشنی بھی
ہر اک حجرہ دریچہ چاہتا ہے
اکرم نقاش
ہزار کارواں یوں تو ہیں میرے ساتھ مگر
جو میرے نام ہے وہ قافلہ کب آئے گا
اکرم نقاش
عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر
کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے
اکرم نقاش
جیسے پانی پہ نقش ہو کوئی
رونقیں سب عدم ثبات رہیں
اکرم نقاش
جیوں گا میں تری سانسوں میں جب تک
خود اپنی سانس میں زندہ رہوں گا
اکرم نقاش
کچھ تو عنایتیں ہیں مرے کارساز کی
اور کچھ مرے مزاج نے تنہا کیا مجھے
اکرم نقاش