عقل والوں میں ہے گزر میرا
میری دیوانگی سنبھال مجھے
اکھلیش تیواری
بے سبب کچھ بھی نہیں ہوتا ہے یا یوں کہیے
آگ لگتی ہے کہیں پر تو دھواں ہوتا ہے
اکھلیش تیواری
ہنسنا رونا پانا کھونا مرنا جینا پانی پر
پڑھیے تو کیا کیا لکھا ہے دریا کی پیشانی پر
اکھلیش تیواری
ہر دم بدن کی قید کا رونا فضول ہے
موسم صدائیں دے تو بکھر جانا چاہئے
اکھلیش تیواری
جسے پرچھائیں سمجھے تھے حقیقت میں نہ پیکر ہو
پرکھنا چاہئے تھا آپ کو اس شے کو چھو کر بھی
اکھلیش تیواری
خیال آیا ہمیں بھی خدا کی رحمت کا
سنائی جب بھی پڑی ہے اذان پنجرے میں
اکھلیش تیواری
کوئی تو بات ہے پچھلے پہر میں راتوں کے
یہ بند کمرہ عجب روشنی سے بھر جائے
اکھلیش تیواری
پھسلن یہ کناروں پہ یہ ٹھہراؤ ندی کا
سب صاف اشارہ ہیں کہ گہرائی بہت ہے
اکھلیش تیواری
قدم بڑھا تو لوں آبادیوں کی سمت مگر
مجھے وہ ڈھونڈھتا تنہائیوں میں آیا تو
اکھلیش تیواری