EN हिंदी
وہم ہی ہوگا مگر روز کہاں ہوتا ہے | شیح شیری
wahm hi hoga magar rose kahan hota hai

غزل

وہم ہی ہوگا مگر روز کہاں ہوتا ہے

اکھلیش تیواری

;

وہم ہی ہوگا مگر روز کہاں ہوتا ہے
دھندھ چھائی ہے تو اک چہرہ عیاں ہوتا ہے

شام خوش رنگ پرندوں کے چہک جانے سے
گھر ہوا جاتا ہے دن میں جو مکاں ہوتا ہے

وو کوئی جذبہ ہو الفاظ کا محتاج نہیں
کچھ نہ کہنا بھی خود اپنی ہی زباں ہوتا ہے

بے سبب کچھ بھی نہیں ہوتا ہے یا یوں کہیے
آگ لگتی ہے کہیں پر تو دھواں ہوتا ہے

بازگشت اور صداؤں کی ابھر آتی ہے
جتنا خالی کوئی اکھلیشؔ کنواں ہوتا ہے