وہم ہی ہوگا مگر روز کہاں ہوتا ہے
دھندھ چھائی ہے تو اک چہرہ عیاں ہوتا ہے
شام خوش رنگ پرندوں کے چہک جانے سے
گھر ہوا جاتا ہے دن میں جو مکاں ہوتا ہے
وو کوئی جذبہ ہو الفاظ کا محتاج نہیں
کچھ نہ کہنا بھی خود اپنی ہی زباں ہوتا ہے
بے سبب کچھ بھی نہیں ہوتا ہے یا یوں کہیے
آگ لگتی ہے کہیں پر تو دھواں ہوتا ہے
بازگشت اور صداؤں کی ابھر آتی ہے
جتنا خالی کوئی اکھلیشؔ کنواں ہوتا ہے
غزل
وہم ہی ہوگا مگر روز کہاں ہوتا ہے
اکھلیش تیواری