وقت کر دے نہ پائمال مجھے
اب کسی شکل میں تو ڈھال مجھے
عقل والوں میں ہے گزر میرا
میری دیوانگی سنبھال مجھے
میں زمیں بھولتا نہیں ہرگز
تو بڑے شوق سے اچھال مجھے
تجربے تھے جدا جدا اپنے
تم کو دانہ دکھا تھا جال مجھے
اور کب تک رہوں معطل سا
کر دے ماضی مرے بحال مجھے
غزل
وقت کر دے نہ پائمال مجھے
اکھلیش تیواری