ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں بدنامیاں رسوائیاں
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں مجبوریاں تنہائیاں
کیا زمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات
کروٹیں بیتابیاں انگڑائیاں
کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار
آہٹیں گھبراہٹیں پرچھائیاں
ایک رند مست کی ٹھوکر میں ہیں
شاہیاں سلطانیاں دارائیاں
ایک پیکر میں سمٹ کر رہ گئیں
خوبیاں زیبائیاں رعنائیاں
رہ گئیں اک طفل مکتب کے حضور
حکمتیں آگاہیاں دانائیاں
زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں
بدلیاں برکھا رتیں پروائیاں
دیدہ و دانستہ ان کے سامنے
لغزشیں ناکامیاں پسپائیاں
میرے دل کی دھڑکنوں میں ڈھل گئیں
چوڑیاں موسیقیاں شہنائیاں
ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں
الجھنیں فکریں قیاس آرائیاں
کیفؔ پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں خاموشیاں گہرائیاں
غزل
ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
کیف بھوپالی