دل وہی اشک بار رہتا ہے
غم سے جو ہمکنار رہتا ہے
میں نے دیکھا خرد کے کاندھوں پر
اک جنوں سا سوار رہتا ہے
لب تبسم میں ہو گئے مشاق
دل مگر سوگوار رہتا ہے
ایک لمحے بھی سوچ لوں ان کو
مدتوں اک خمار رہتا ہے
دل رہے بے کلی کے گھیرے میں
ذہن پہ تو سوار رہتا ہے
تیرے خوابوں کی لت لگی جب سے
رات کا انتظار رہتا ہے
سچ کے دھاگے سے جو بنے رشتہ
عمر بھر استوار رہتا ہے
تیرے دل نے بھی پڑھ لیا کلمہ
جس میں یہ گنہ گار رہتا ہے
جب سے جوڑا ہے آپ سے رشتہ
دامن تار، تار رہتا ہے
وہ تصور میں اک گھڑی آئیں
دیر تک دل بہار رہتا ہے
چاند سے اس لئے ہے پیار مجھے
یہ بھی یاروں کا یار رہتا ہے
گھر میں آتے ہی مہ جبیں نے کہا
یاں تو اختر شمار رہتا ہے
اب تو کر ڈالیے وفا اس کو
وہ جو وعدہ ادھار رہتا ہے
اک طرف گردشیں زمانے کی
اک طرف تیرا پیار رہتا ہے
ترے در سے جڑا ہوا مفلس
عشق میں مال دار رہتا ہے
ماں نے دے دی دعا تو حشر تلک
اس کا باندھا حصار رہتا ہے
دل میں سجدے کیا کرو مفتیؔ
اس میں پروردگار رہتا ہے
غزل
دل وہی اشک بار رہتا ہے
ابن مفتی