انا نے ٹوٹ کے کچھ فیصلہ کیا ہی نہیں
بیان اپنا کبھی مدعا کیا ہی نہیں
ہر ایک شخص کو انسان ہی رکھا ہم نے
کہ آدمی کو نظر میں خدا کیا ہی نہیں
بس ایک بار ہی توڑا جہاں نے عہد وفا
کسی سے ہم نے پھر عہد وفا کیا ہی نہیں
کئی دشاؤں سے گزرا ہے کاروان حیات
ٹھہر کے دل کو کہیں مبتلا کیا ہی نہیں
پہاڑ ظلم و ستم کے ہنسی میں کاٹ دیے
ادائے ناز کہ کوئی گلہ کیا ہی نہیں
چھوا جسے بھی وہی لفظ بن گیا تاریخ
کہ بے اثر کوئی جملہ ادا کیا ہی نہیں
تمام عمر سنوارا غزل کی دنیا کو
کہ اشکؔ ہم نے کچھ اس کے سوا کیا ہی نہیں
غزل
انا نے ٹوٹ کے کچھ فیصلہ کیا ہی نہیں
ابراہیم اشکؔ