EN हिंदी
جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا | شیح شیری
jo chahti duniya hai wo mujhse nahin hoga

غزل

جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا

شہریار

;

جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا
سمجھوتا کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا

اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا

خوش فہمی ابھی تک تھی یہی کار جنوں میں
جو میں نہیں کر پایا کسی سے نہیں ہوگا

تدبیر نئی سوچ کوئی اے دل سادہ
مائل بہ کرم تجھ پہ وہ ایسے نہیں ہوگا

بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں
جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا