پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف
چلا ہے چھوڑ کے بسمل مجھے ہرن کی طرف
بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ
نہ دیکھی راہ جو خلوت سے انجمن کی طرف
رہ وفا کو نہ چھوڑا وہ عندلیب ہوں میں
چھٹا قفس سے تو پرواز کی چمن کی طرف
گریز چاہئے طول امل سے سالک کو
سنا ہے راہ یہ جاتی ہے راہزن کی طرف
سرائے دہر میں سوؤ گے غافلو کب تک
اٹھو تو کیا تمہیں جانا نہیں وطن کی طرف
جو اہل دل ہیں الگ ہیں وہ اہل ظاہر سے
نہ میں ہوں شیخ کی جانب نہ برہمن کی طرف
جہان حادثہ آگین میں بشر کا ورود
گزر حباب کا دریائے موجزن کی طرف
اسی امید پہ ہم دن خزاں کے کاٹتے ہیں
کبھی تو باد بہار آئے گی چمن کی طرف
بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی
سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف
گواہ کون مرے قتل کا ہو محشر میں
ابھی سے سارا زمانہ ہے تیغ زن کی طرف
خبر دی اٹھ کے قیامت نے اس کے آنے کی
خدا ہی خیر کرے رخ ہے انجمن کی طرف
وہ اپنے رخ کی صباحت کو آپ دیکھتے ہیں
جھکے ہوئے گل نرگس ہیں یاسمن کی طرف
تمام بزم ہے کیا محو اس کی باتوں میں
نظر دہن کی طرف کان ہے سخن کی طرف
اسیر ہو گیا دل گیسوؤں میں خوب ہوا
چلا تھا ڈوب کے مرنے چہ ذقن کی طرف
یہ میکشوں کی ادا ابر تر بھی سیکھ گئے
کنار جو سے جو اٹھے چلے چمن کی طرف
زہے نصیب جو ہو کربلا کی موت اے نظمؔ
کہ اڑ کے خاک شفا آئے خود کفن کی طرف
غزل
پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف
نظم طبا طبائی