EN हिंदी
تنہائی کے آب رواں کے ساحل پر بیٹھا ہوں میں | شیح شیری
tanhai ke aab-e-rawan ke sahil par baiTha hun main

غزل

تنہائی کے آب رواں کے ساحل پر بیٹھا ہوں میں

فرحت احساس

;

تنہائی کے آب رواں کے ساحل پر بیٹھا ہوں میں
لہریں آتی جاتی رہتی ہیں دیکھا کرتا ہوں میں

کون سا لفظ ادا ہونے کا پس منظر ہے میرا وجود
کس کا ہول ہے میرے دل میں کیسا سناٹا ہوں میں

ہجر و وصال چراغ ہیں دونوں تنہائی کے طاقوں میں
اکثر دونوں گل رہتے ہیں اور جلا کرتا ہوں میں

خالی در و دیوار کی خوشبو پاگل رکھتی ہے مجھ کو
جانے کہاں وہ پھول کھلا ہے جس کا ماں جایا ہوں میں

سب یہ سوچتے ہیں فرحتؔ احساس تماشا ہے کوئی
میں یہ سوچتا رہتا ہوں کس مٹی کا پتلا ہوں میں