تنہائی کے آب رواں کے ساحل پر بیٹھا ہوں میں
لہریں آتی جاتی رہتی ہیں دیکھا کرتا ہوں میں
کون سا لفظ ادا ہونے کا پس منظر ہے میرا وجود
کس کا ہول ہے میرے دل میں کیسا سناٹا ہوں میں
ہجر و وصال چراغ ہیں دونوں تنہائی کے طاقوں میں
اکثر دونوں گل رہتے ہیں اور جلا کرتا ہوں میں
خالی در و دیوار کی خوشبو پاگل رکھتی ہے مجھ کو
جانے کہاں وہ پھول کھلا ہے جس کا ماں جایا ہوں میں
سب یہ سوچتے ہیں فرحتؔ احساس تماشا ہے کوئی
میں یہ سوچتا رہتا ہوں کس مٹی کا پتلا ہوں میں
غزل
تنہائی کے آب رواں کے ساحل پر بیٹھا ہوں میں
فرحت احساس