مرے وجود کو پرچھائیوں نے توڑ دیا
میں اک حصار تھا تنہائیوں نے توڑ دیا
بہم جو محفل اغیار میں رہے تھے کبھی
یہ سلسلہ بھی شناسائیوں نے توڑ دیا
بس ایک ربط نشانی تھا اپنے پرکھوں کی
اسے بھی آج مرے بھائیوں نے توڑ دیا
تو بے خبر ہے مگر نیند سے بھری لڑکی
مرا بدن تری انگڑائیوں نے توڑ دیا
خزاں کی رت میں بھی میں شاخ سے نہیں ٹوٹا
مجھے بہار کی پروائیوں نے توڑ دیا
مرا بھرم تھا یہی ایک میری تنہائی
یہ اک بھرم بھی تماشائیوں نے توڑ دیا
غزل
مرے وجود کو پرچھائیوں نے توڑ دیا
فاضل جمیلی