ہر ایک راستے کا ہم سفر رہا ہوں میں
تمام عمر ہی آشفتہ سر رہا ہوں میں
قدم قدم پہ وہاں قربتیں تھیں اور یہاں
ہجوم شہر سے تنہا گزر رہا ہوں میں
پکارا جب مجھے تنہائی نے تو یاد آیا
کہ اپنے ساتھ بہت مختصر رہا ہوں میں
یہ کیسی رفعتیں آئینۂ نگاہ میں ہیں
کسی ستارے پہ جیسے اتر رہا ہوں میں
میں روشنی ہی کی وحدانیت کا قائل ہوں
محبتوں ہی کا پیغام بر رہا ہوں میں
میں شب پرست نہیں ہوں یہی خطا ہے مری
ادا شناس جمال سحر رہا ہوں میں
یہاں بس ایک نیا تجربہ ہوا فارغؔ
کہ لمحے لمحے کو محسوس کر رہا ہوں میں
غزل
ہر ایک راستے کا ہم سفر رہا ہوں میں
فارغ بخاری