کتنے شکوے گلے ہیں پہلے ہی
راہ میں فاصلے ہیں پہلے ہی
کچھ تلافی نگار فصل خزاں
ہم لٹے قافلے ہیں پہلے ہی
اور لے جائے گا کہاں گلچیں
سارے مقتل کھلے ہیں پہلے ہی
اب زباں کاٹنے کی رسم نہ ڈال
کہ یہاں لب سلے ہیں پہلے ہی
اور کس شئے کی ہے طلب فارغؔ
درد کے سلسلے ہیں پہلے ہی
غزل
کتنے شکوے گلے ہیں پہلے ہی
فارغ بخاری