کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
بہادر شاہ ظفر
عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں
داغ کی نقدی ملی صحرا ملا جاگیر میں
بقا اللہ بقاؔ
ہاتھ میں چاند جہاں آیا مقدر چمکا
سب بدل جائے گا قسمت کا لکھا جام اٹھا
بشیر بدر
کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا
مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے
بشیر بدر
تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی
بگڑی ہوئی تقدیر بنائی نہیں جاتی
داغؔ دہلوی
کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے
کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں
فرید پربتی
کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی
جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے
فراق گورکھپوری