میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ
دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے
غلام حسین ساجد
نہ تو کچھ فکر میں حاصل ہے نہ تدبیر میں ہے
وہی ہوتا ہے جو انسان کی تقدیر میں ہے
there is naught from worrying, nor from planning gained
for everything that happens is by fate ordained
حیرت الہ آبادی
جو چل پڑے تھے عزم سفر لے کے تھک گئے
جو لڑکھڑا رہے تھے وہ منزل پہ آئے ہیں
حیرت سہروردی
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
حسرتؔ موہانی
جستجو کرنی ہر اک امر میں نادانی ہے
جو کہ پیشانی پہ لکھی ہے وہ پیش آنی ہے
امام بخش ناسخ
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن
جگر مراد آبادی
مقبول ہوں نہ ہوں یہ مقدر کی بات ہے
سجدے کسی کے در پہ کیے جا رہا ہوں میں
whether or not accepted, it is up to fate
at her doorstep on and on, I myself prostrate
جوشؔ ملسیانی