جور و بے مہری اغماض پہ کیا روتا ہے
مہرباں بھی کوئی ہو جائے گا جلدی کیا ہے
کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی
جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے
دل کا اک کام جو ہوتا نہیں اک مدت سے
تم ذرا ہاتھ لگا دو تو ہوا رکھا ہے
نگۂ شوخ میں اور دل میں ہیں چوٹیں کیا کیا
آج تک ہم نہ سمجھ پائے کہ جھگڑا کیا ہے
عشق سے توبہ بھی ہے حسن سے شکوے بھی ہزار
کہیے تو حضرت دل آپ کا منشا کیا ہے
زینت دوش ترا نامۂ اعمال نہ ہو
تیری دستار سے واعظ یہ لٹکتا کیا ہے
ہاں ابھی وقت کا آئینہ دکھائے کیا کیا
دیکھتے جاؤ زمانہ ابھی دیکھا کیا ہے
نہ یگانے ہیں نہ بیگانے تری محفل میں
نہ کوئی غیر یہاں ہے نہ کوئی اپنا ہے
نگہ مست کو جنبش نہ ہوئی گو سر بزم
کچھ تو اس جام لبا لب سے ابھی چھلکا ہے
رات دن پھرتی ہے پلکوں کے جو سائے سائے
دل مرا اس نگۂ ناز کا دیوانا ہے
ہم جدائی سے بھی کچھ کام تو لے ہی لیں گے
بے نیازانہ تعلق ہی چھٹا اچھا ہے
ان سے بڑھ چڑھ کے تو اے دوست ہیں یادیں ان کی
ناز و انداز و ادا میں تری رکھا کیا ہے
ایسی باتوں سے بدلتی ہے کہیں فطرت حسن
جان بھی دے دے اگر کوئی تو کیا ہوتا ہے
تری آنکھوں کو بھی انکار تری زلف کو بھی
کس نے یہ عشق کو دیوانہ بنا رکھا ہے
دل ترا جان تری آہ تری اشک ترے
جو ہے اے دوست وہ تیرا ہے ہمارا کیا ہے
در دولت پہ دعائیں سی سنی ہیں میں نے
دیکھیے آج فقیروں کا کدھر پھیرا ہے
تجھ کو ہو جائیں گے شیطان کے درشن واعظ
ڈال کر منہ کو گریباں میں کبھی دیکھا ہے
ہم کہے دیتے ہیں چالوں میں نہ آؤ ان کی
ثروت و جاہ کے عشووں سے بچو دھوکا ہے
یہی گر آنکھ میں رہ جائے تو ہے چنگاری
قطرۂ اشک جو بہہ جائے تو اک دریا ہے
زلف شب گوں کے سوا نرگس جادو کے سوا
دل کو کچھ اور بلاؤں نے بھی آ گھیرا ہے
لب اعجاز کی سوگند یہ جھنکار تھی کیا
تیری خاموشی کے مانند ابھی کچھ ٹوٹا ہے
دار پر گاہ نظر گاہ سوئے شہر نگار
کچھ سنیں ہم بھی تو اے عشق ارادہ کیا ہے
آ کہ غربت کدۂ دہر میں جی بہلائیں
اے دل اس جلوہ گہہ ناز میں کیا رکھا ہے
زخم ہی زخم ہوں میں صبح کی مانند فراقؔ
رات بھر ہجر کی لذت سے مزا لوٹا ہے
غزل
جور و بے مہری اغماض پہ کیا روتا ہے
فراق گورکھپوری