سکندر ہوں تلاش آب حیواں روز کرتا ہوں
ابھی نقش و نگار زندگی میں رنگ بھرتا ہوں
لگا کر سب لہو آخر ہوئے داخل شہیدوں میں
میں اپنی لاش رستے سے ہٹانے تک سے ڈرتا ہوں
پرائی آگ گر ہوتی تو کب کی جل بجھی ہوتی
میں ہنستے کھیلتے موج حوادث سے گزرتا ہوں
یقیناً موت کے ہر عکس پر وہ خاک ڈالے گا
دعا سے جس کی میں اب تک نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں
کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے
کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں
تمہارا اذن ہو حاصل تو دریا راستہ دیں گے
جہاں فرعون ڈوبا تھا وہیں پہ پار اترا ہوں
فریدؔ اس کی طلب مجھ کو جھانکتی ہے کنویں اکثر
وہ چہرہ جس کی چاہت میں میں کیا کیا کر گزرتا ہوں
غزل
سکندر ہوں تلاش آب حیواں روز کرتا ہوں
فرید پربتی