EN हिंदी
مایوسی شیاری | شیح شیری

مایوسی

47 شیر

کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا

بشیر بدر




خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بشیر بدر




نا امیدی ہے بری چیز مگر
ایک تسکین سی ہو جاتی ہے

بسمل سعیدی




ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی

داغؔ دہلوی




نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

فیض احمد فیض




ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی




شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

فراق گورکھپوری