EN हिंदी
مایوسی شیاری | شیح شیری

مایوسی

47 شیر

اس ڈوبتے سورج سے تو امید ہی کیا تھی
ہنس ہنس کے ستاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے

مہیش چندر نقش




شام ہجراں بھی اک قیامت تھی
آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا

مہیش چندر نقش




یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں
تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت

محمود شام




آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

ناصر کاظمی




بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

ناصر کاظمی




دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ناصر کاظمی




ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

ناصر کاظمی