EN हिंदी
مایوسی شیاری | شیح شیری

مایوسی

47 شیر

مرے دل کے اکیلے گھر میں راحتؔ
اداسی جانے کب سے رہ رہی ہے

حمیرا راحتؔ




رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ابن انشا




مرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن
اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا

اقبال ساجد




اداسیاں ہیں جو دن میں تو شب میں تنہائی
بسا کے دیکھ لیا شہر آرزو میں نے

جنید حزیں لاری




غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

خمارؔ بارہ بنکوی




بہت دنوں سے مرے بام و در کا حصہ ہے
مری طرح یہ اداسی بھی گھر کا حصہ ہے

خوشبیر سنگھ شادؔ




دیکھتے ہیں بے نیازانہ گزر سکتے نہیں
کتنے جیتے اس لیے ہوں گے کہ مر سکتے نہیں

محبوب خزاں