میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے سوتا رہا
جانے کیا تھی بات میں جاگا کیا روتا رہا
شبنمی میں دھوپ کی جیسے وطن کا خواب تھا
لوگ یہ سمجھے میں سبزے پر پڑا سوتا رہا
وادیوں میں گاہ اترا اور کبھی پربت چڑھا
بوجھ سا اک دل پہ رکھا ہے جسے ڈھوتا رہا
گاہ پانی گاہ شبنم اور کبھی خوناب سے
ایک ہی تھا داغ سینے میں جسے دھوتا رہا
اک ہوائے بے تکاں سے آخرش مرجھا گیا
زندگی بھر جو محبت کے شجر بوتا رہا
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا
رات کی پلکوں پہ تاروں کی طرح جاگا کیا
صبح کی آنکھوں میں شبنم کی طرح روتا رہا
روشنی کو رنگ کر کے لے گئے جس رات لوگ
کوئی سایہ میرے کمرے میں چھپا روتا رہا
غزل
میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے سوتا رہا
بشیر بدر