مجھ کو یہ فکر کب ہے کہ سایہ کہاں گیا
سورج کو رو رہا ہوں خدایا کہاں گیا
پھر آئنے میں خون دکھائی دیا مجھے
آنکھوں میں آ گیا تو چھپایا کہاں گیا
آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں
لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا
کتنے چراغ گھر میں جلائے گئے نہ پوچھ
گھر آپ جل گیا ہے جلایا کہاں گیا
یہ بھی خبر نہیں ہے کہ ہم راہ کون ہے
پوچھا کہاں گیا ہے بتایا کہاں گیا
وہ بھی بدل گیا ہے مجھے چھوڑنے کے بعد
مجھ سے بھی اپنے آپ میں آیا کہاں گیا
تجھ کو گنوا دیا ہے مگر اپنے آپ کو
برباد کر دیا ہے گنوایا کہاں گیا
غزل
مجھ کو یہ فکر کب ہے کہ سایہ کہاں گیا
فیصل عجمی