EN हिंदी
کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں | شیح شیری
kitab-e-arzu ke gum-shuda kuchh bab rakkhe hain

غزل

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں

غلام محمد قاصر

;

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں

مکاں تو سطح دریا پر بنائے ہیں حبابوں نے
اثاثے گھر کے لیکن سب نے زیر آب رکھے ہیں

یہ کنکر ان سے پہلے ہاتھ پر لہریں بنا لے گا
ہماری راہ میں چاہت نے جو تالاب رکھے ہیں

کناروں پر پہنچ کر تیرنے لگتی ہیں تصویریں
سمندر نے سفینے تو پس گرداب رکھے ہیں

ہمارے گھر کی بنیادوں کے پتھر کیا ہوئے آخر
کہیں طوفان کے ٹکڑے کہیں سیلاب رکھے ہیں

ترے آنے سے پہلے جن کو مرجھانے کی جلدی تھی
وہی پتے ہوائے ہجر نے شاداب رکھے ہیں