کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں
مکاں تو سطح دریا پر بنائے ہیں حبابوں نے
اثاثے گھر کے لیکن سب نے زیر آب رکھے ہیں
یہ کنکر ان سے پہلے ہاتھ پر لہریں بنا لے گا
ہماری راہ میں چاہت نے جو تالاب رکھے ہیں
کناروں پر پہنچ کر تیرنے لگتی ہیں تصویریں
سمندر نے سفینے تو پس گرداب رکھے ہیں
ہمارے گھر کی بنیادوں کے پتھر کیا ہوئے آخر
کہیں طوفان کے ٹکڑے کہیں سیلاب رکھے ہیں
ترے آنے سے پہلے جن کو مرجھانے کی جلدی تھی
وہی پتے ہوائے ہجر نے شاداب رکھے ہیں
غزل
کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
غلام محمد قاصر