بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
ہر پتا نا آسودہ ہے ماحول چمن آلودہ ہے
رہ جائیں لرزتی شاخوں پر دو چار گلاب تو اچھا ہو
یوں شور کا دریا بپھرا ہے چڑیوں نے چہکنا چھوڑ دیا
خطرے کے نشان سے نیچے اب اترے سیلاب تو اچھا ہو
ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں
اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو
ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو
غزل
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
غلام محمد قاصر