EN हिंदी
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو | شیح شیری
barud ke badle hathon mein aa jae kitab to achchha ho

غزل

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

غلام محمد قاصر

;

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

ہر پتا نا آسودہ ہے ماحول چمن آلودہ ہے
رہ جائیں لرزتی شاخوں پر دو چار گلاب تو اچھا ہو

یوں شور کا دریا بپھرا ہے چڑیوں نے چہکنا چھوڑ دیا
خطرے کے نشان سے نیچے اب اترے سیلاب تو اچھا ہو

ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں
اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو