حال میں جینے کی تدبیر بھی ہو سکتی ہے
زندگی ماضی کی تصویر بھی ہو سکتی ہے
آس میں اس کی نہ ہر کام ادھورا چھوڑو
اس کے آنے میں تو تاخیر بھی ہو سکتی ہے
میرا ہر خواب تو بس خواب ہی جیسا نکلا
کیا کسی خواب کی تعبیر بھی ہو سکتی ہے
دل تو میرا تھا مگر یہ مجھے معلوم نہ تھا
یہ کسی اور کی جاگیر بھی ہو سکتی ہے
زندگی جلنے لگی آتش تنہائی میں
جرم الفت کی یہ تعزیر بھی ہو سکتی ہے
دل کو برباد نہیں کرنا کہ اس میں پھر سے
خواہشوں کی نئی تعمیر بھی ہو سکتی ہے
تھک گیا ہوں میں حکایات جنوں لکھ لکھ کر
یہ مری آخری تحریر بھی ہو سکتی ہے
غزل
حال میں جینے کی تدبیر بھی ہو سکتی ہے
فرحت ندیم ہمایوں