EN हिंदी
ہزار طرح سے گردش میں آفتاب رہا | شیح شیری
hazar tarah se gardish mein aaftab raha

غزل

ہزار طرح سے گردش میں آفتاب رہا

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

ہزار طرح سے گردش میں آفتاب رہا
نگاہ ناز کا لیکن کہاں جواب رہا

وہ آ گئے ہیں تو اب چھوڑو اس فسانے کو
کہاں کہاں میں پھرا کس طرح خراب رہا

سنا رہا ہوں انہیں جھوٹ موٹ اک قصہ
کہ ایک شخص محبت میں کامیاب رہا

اگرچہ اور بھی فتنے اٹھے قیامت کے
ترا شباب ہی عالم میں انتخاب رہا

رہ حیات میں ہم چاک دل سے دیکھیں گے
جہاں جہاں بھی رخ دہر پر نقاب رہا