اس ستم گر سے جو ملا ہوگا
جان سے ہاتھ دھو چکا ہوگا
عشق میں تیرے ہم جو کچھ دیکھا
نہ کسی نے کبھی سنا ہوگا
آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا
تو ہی آنکھوں میں تو ہی ہے دل میں
کون یاں اور تجھ سوا ہوگا
اے میاں گل تو کھل چکے پہ کبھو
غنچۂ دل مرا بھی وا ہوگا
دیکھ تو فال میں کہ وہ مجھ سے
نہ ملے گا ملے گا کیا ہوگا
ہے یقیں مجھ کو تجھ ستم گر سے
دل کسی کا اگر لگا ہوگا
نالہ و آہ کرتے ہی کرتے
ایک دن یوں ہی مر گیا ہوگا
کوئی ہوگا کہ دیکھ اسے بیدارؔ
دل و دیں لے کے تج رہا ہوگا
غزل
اس ستم گر سے جو ملا ہوگا
میر محمدی بیدار