EN हिंदी
کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا | شیح شیری
khula hai dar pa tera intizar jata raha

غزل

کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا

جاوید اختر

;

کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا
خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا

کسی کی آنکھ میں مستی تو آج بھی ہے وہی
مگر کبھی جو ہمیں تھا خمار جاتا رہا

کبھی جو سینے میں اک آگ تھی وہ سرد ہوئی
کبھی نگاہ میں جو تھا شرار جاتا رہا

عجب سا چین تھا ہم کو کہ جب تھے ہم بے چین
قرار آیا تو جیسے قرار جاتا رہا

کبھی تو میری بھی سنوائی ہوگی محفل میں
میں یہ امید لیے بار بار جاتا رہا