EN हिंदी
دھکا شیاری | شیح شیری

دھکا

36 شیر

گن رہا ہوں حرف ان کے عہد کے
مجھ کو دھوکا دے رہی ہے یاد کیا

عزیز حیدرآبادی




عاشقی میں بہت ضروری ہے
بے وفائی کبھی کبھی کرنا

بشیر بدر




امید وصل نے دھوکے دیئے ہیں اس قدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے

چراغ حسن حسرت




ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے

فنا نظامی کانپوری




دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

فاطمہ حسن




جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں

فراق گورکھپوری




کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

فراق گورکھپوری