EN हिंदी
دھکا شیاری | شیح شیری

دھکا

36 شیر

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں

افضل خان




مجھی کو پردۂ ہستی میں دے رہا ہے فریب
وہ حسن جس کو کیا جلوہ آفریں میں نے

اختر علی اختر




چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکا دیا مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی

اختر ہوشیارپوری




وہ زہر دیتا تو سب کی نگہ میں آ جاتا
سو یہ کیا کہ مجھے وقت پہ دوائیں نہ دیں

اختر نظمی




یار میں اتنا بھوکا ہوں
دھوکا بھی کھا لیتا ہوں

عکس سمستی پوری




اے مجھ کو فریب دینے والے
میں تجھ پہ یقین کر چکا ہوں

اطہر نفیس




جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے
وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا

عزیز حامد مدنی