EN हिंदी
دھکا شیاری | شیح شیری

دھکا

36 شیر

کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے
کس سے کہوں کہ میرا گنہ گار کون ہے

نجیب احمد




فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو

ندا فاضلی




احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں

قتیل شفائی




ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

قتیل شفائی




میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

قتیل شفائی




مدت ہوئی اک شخص نے دل توڑ دیا تھا
اس واسطے اپنوں سے محبت نہیں کرتے

ساقی فاروقی




باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

ثاقب لکھنوی