یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے
نہ پوچھو زخم ہائے دل کا عالم
چمن میں ایسی گل کاری نہیں ہے
بہت دشوار سمجھانا ہے غم کا
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے
غزل ہی گنگنانے دو کہ مجھ کو
مزاج تلخ گفتاری نہیں ہے
چمن میں کیوں چلوں کانٹوں سے بچ کر
یہ آئین وفاداری نہیں ہے
وہ آئیں قتل کو جس روز چاہیں
یہاں کس روز تیاری نہیں ہے
غزل
یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے
کلیم عاجز