کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں
اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں
کیوں ترے ہجر کے منظر پہ ستم ڈھاتے ہیں
زخم بھی دیتے ہیں اور خواب بھی دکھلاتے ہیں
ہم بھی ان بچوں کی مانند کوئی پل جی لیں
ایک سکہ جو ہتھیلی پہ سجا لاتے ہیں
یہ تو ہر روز کا معمول ہے حیران ہو کیوں
پیاس ہی پیتے ہیں ہم بھوک ہی ہم کھاتے ہیں
ہر بڑا بچوں کو جینے کی دعا دیتا ہے
ہم بھی شاید اسی ورثے کی سزا پاتے ہیں
صبح لے جاتے ہیں ہم اپنا جنازہ گھر سے
شام کو پھر اسے کاندھوں پہ اٹھا لاتے ہیں
شہر کی بھیڑ میں کیا ہو اسی خاطر آذرؔ
اپنی پہچان کو ہم گھر میں ہی چھوڑ آتے ہیں
غزل
کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں
کفیل آزر امروہوی