مٹی جب تک نم رہتی ہے
خوشبو تازہ دم رہتی ہے
اپنی رو میں مست و غزل خواں
موج ہوائے غم رہتی ہے
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک لہر سی ہر دم رہتی ہے
ہر ساز جدا کیوں ہوتا ہے
کیوں سنگت باہم رہتی ہے
کیوں آنگن ٹیڑھا لگتا ہے
کیوں پایل برہم رہتی ہے
اب ایسے سرکش قامت پر
کیوں تیغ مژہ خم رہتی ہے
کیوں آپ پریشاں رہتے ہیں
کیوں آنکھ رساؔ نم رہتی ہے
غزل
مٹی جب تک نم رہتی ہے
رسا چغتائی