EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مرکز جاں تو وہی تو ہے مگر تیرے سوا
لوگ ہیں اور بھی اس یاد پرانی میں کہیں

ابرار احمد




قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ
پانی میں ہے کیا اور بھی پانی سے زیادہ

ابرار احمد




تو کہیں بیٹھ اور حکم چلا
ہم جو ہیں تیرا بوجھ ڈھونے کو

ابرار احمد




یاد بھی تیری مٹ گئی دل سے
اور کیا رہ گیا ہے ہونے کو

ابرار احمد




یہ داغ عشق جو مٹتا بھی ہے چمکتا بھی ہے
یہ زخم ہے کہ نشاں ہے مجھے نہیں معلوم

ابرار احمد




یہ اونٹ اور کسی کے ہیں دشت میرا ہے
سوار میرے نہیں سارباں نہیں میرا

ابرار احمد




یوں ہی نمٹا دیا ہے جس کو تو نے
وہ قصہ مختصر ایسا نہیں تھا

ابرار احمد