EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سب اپنے اپنے طریقے سے بھیک مانگتے ہیں
کوئی بنام محبت کوئی بہ جامۂ عشق

عابد ودود




سر پر گرے مکان کا ملبہ ہی رکھ لیا
دنیا کے قیمتی سر و سامان سے گئے

عابد ودود




شہر یہ سایوں کا ہے اس میں بنی آدم کہاں
اب کسی صورت یہاں انسان ہونا چاہئے

عابد ودود




ترے ہاتھوں میں ہے تری قسمت
تری عزت ترے ہی کام سے ہے

عابد ودود




یزید وقت نے اب کے لگائی ہے قدغن
کہ بھول کر بھی نہ گائے کوئی ترانۂ عشق

عابد ودود




سوچتا ہوں کچھ عمل کرتا ہوں کچھ
مجھ میں کوئی دوسرا موجود ہے

ابرار عابد




بھر لائے ہیں ہم آنکھ میں رکھنے کو مقابل
اک خواب تمنا تری غفلت کے برابر

ابرار احمد