EN हिंदी
زمیں نہیں یہ مری آسماں نہیں میرا | شیح شیری
zamin nahin ye meri aasman nahin mera

غزل

زمیں نہیں یہ مری آسماں نہیں میرا

ابرار احمد

;

زمیں نہیں یہ مری آسماں نہیں میرا
متاع خواب بجز کچھ یہاں نہیں میرا

یہ اونٹ اور کسی کے ہیں دشت میرا ہے
سوار میرے نہیں سارباں نہیں میرا

مجھے تمہارے تیقن سے خوف آتا ہے
کہ اس یقین میں شامل گماں نہیں میرا

میں ہو گیا ہوں خود اپنے سفر سے بیگانہ
کہ نیند میری ہے خواب رواں نہیں میرا

تو آب و خاک سے بچ کر کدھر کو جاتا میں
دوام وصل ہے باقی نشاں نہیں میرا

پھر ایک دن اسی مٹی کو لوٹ جاؤں گا
گریز تجھ سے رہ رفتگاں نہیں میرا

صدائے شہر گزشتہ ابھی بلاتی ہے
گو اب عزیز کوئی بھی وہاں نہیں میرا