EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آوازوں کا بوجھ اٹھائے صدیوں سے
بنجاروں کی طرح گزارہ کرتا ہوں

ابرار اعظمی




چہروں کے میلے جسموں کے جنگل تھے ہر جگہ
ان میں کہیں بھی کوئی مگر آدمی نہ تھا

ابرار اعظمی




کمرے میں دھواں درد کی پہچان بنا تھا
کل رات کوئی پھر مرا مہمان بنا تھا

ابرار اعظمی




خوش نما دیوار و در کے خواب ہی دیکھا کئے
جسم صحرا ذہن ویراں آنکھ گیلی ہو گئی

ابرار اعظمی




میں نے کل توڑا اک آئینہ تو محسوس ہوا
اس میں پوشیدہ کوئی چیز تھی جوہر جیسی

ابرار اعظمی




مجھے بھی فرصت نظارۂ جمال نہ تھی
اور اس کو پاس کسی اور کے بھی جانا تھا

ابرار اعظمی




پرندے فضاؤں میں پھر کھو گئے
دھواں ہی دھواں آشیانوں میں تھا

ابرار اعظمی