EN हिंदी
قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ | شیح شیری
qisse se tere meri kahani se ziyaada

غزل

قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ

ابرار احمد

;

قصے سے ترے میری کہانی سے زیادہ
پانی میں ہے کیا اور بھی پانی سے زیادہ

اس خاک میں پنہاں ہے کوئی خواب مسلسل
ہے جس میں کشش عالم فانی سے زیادہ

نخل گل ہستی کے گل و برگ عجب ہیں
اڑتے ہیں یہ اوراق خزانی سے زیادہ

ہر رخ ہے کہیں اپنے خد و خال سے باہر
ہر لفظ ہے کچھ اپنے معانی سے زیادہ

وہ حسن ہے کچھ حسن کے آزار سے بڑھ کر
وہ رنگ ہے کچھ اپنی نشانی سے زیادہ

ہم پاس سے تیرے کہاں اٹھ آئے ہیں یہ دیکھ
اب اور ہو کیا نقل مکانی سے زیادہ

اس شب میں ہو گریہ کوئی تاریکی سے گہرا
ہو کوئی مہک رات کی رانی سے زیادہ

ہم کنج تمنا میں رہیں گے کہ ابھی تک
ہے یاد تری یاد دہانی سے زیادہ

اب ایسا زبوں بھی تو نہیں حال ہمارا
ہے زخم عیاں درد نہانی سے زیادہ