نہ گھر سکون کدہ ہے نہ کارخانۂ عشق
مگر یہ ہم ہیں کہ لکھتے رہے ہیں نامۂ عشق
بہت سے نام تھے اب کوئی یاد آتا نہیں
ہمارے دل میں رہا دفن اک خزانۂ عشق
سب اپنے اپنے طریقے سے بھیک مانگتے ہیں
کوئی بنام محبت کوئی بہ جامۂ عشق
تمہی پہ کیا کہ ہم اب خود پہ بھی نہیں کھلتے
تو کیا یہ کم ہے کہ ہم پر کھلا فسانۂ عشق
کئی زمانے گئے اور بدل گیا سب کچھ
مگر کبھی نہیں بدلا ترا زمانۂ عشق
سلگتے رہنے کی لذت اسے کہاں معلوم
کہ جب تلک کوئی بنتا نہیں نشانۂ عشق
اسے پھر اپنی خبر بھی نہیں رہی عابدؔ
لگا ہے جس کو بھی اک بار تازیانۂ عشق
غزل
نہ گھر سکون کدہ ہے نہ کارخانۂ عشق
عابد ودود