EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب قفس اور گلستاں میں کوئی فرق نہیں
ہم کو خوشبو کی طلب ہے یہ صبا جانتی ہے

عابد ودود




ہم فقیروں کا پیرہن ہے دھوپ
اور یہ رات اپنی چادر ہے

عابد ودود




ہم کسی سلطاں کے تابع نہیں عابدؔ ودود
ہم وہ کہتے ہیں جو اپنے دل پہ ہے گزری ہوئی

عابد ودود




اس اعتبار پہ کاٹی ہے ہم نے عمر عزیز
سحر کا وقت اجالے بھی ساتھ لائے گا

عابد ودود




کوئی منظر بھی نہیں اچھا لگا
اب کے آنکھوں میں ہے ویرانی بہت

عابد ودود




مگر یہ تیرگی جانے کا نام لیتی نہیں
میں نور بانٹتا سوز نہاں کی زد میں ہوں

عابد ودود




میں بارشوں میں بہت بھیگتا رہا عابدؔ
سلگتی دھوپ میں اک چھت بہت ضروری ہے

عابد ودود