فکر کا گر سلسلہ موجود ہے
فاش ہے وہ بھی جو ناموجود ہے
اس سے مجھ سے فاصلہ کچھ بھی نہیں
ایک دیوار انا موجود ہے
سوچتا ہوں کچھ عمل کرتا ہوں کچھ
مجھ میں کوئی دوسرا موجود ہے
سنتا رہتا ہوں ترے قدموں کی چاپ
ورنہ دل میں اور کیا موجود ہے
ہجر میں روئے تو جی ہلکا ہوا
درد کے اندر دوا موجود ہے
حال پوچھا اس نے مجھ سے بات کی
اب یقین آیا خدا موجود ہے
اب تو عابدؔ چشم نم بھی ہے خموش
روز اک صدمہ نیا موجود ہے
غزل
فکر کا گر سلسلہ موجود ہے
ابرار عابد