چٹان کے سائے میں کھڑا سوچ رہا ہوں
میں آب رواں کس کے لیے ٹھہر گیا ہوں
پانی میں چمکتا ہے کوئی مہرباں سایہ
شفاف سمندر ہوں اسے چوم رہا ہوں
پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں
موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں
اک سیپ تو لے آیا تھا پانی میں اتر کر
مانا کہ اسے ریت پہ اب پھینک چکا ہوں
صحرائے ہوس اپنی طرف کھینچ رہا ہے
میں اندھے سمندر کی طرف دیکھ رہا ہوں
غزل
چٹان کے سائے میں کھڑا سوچ رہا ہوں
عبد الرحیم نشتر