میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں
برا سمجھ لے مگر دوسروں سے اچھا ہوں
میں اپنے آپ کو جچتا ہوں بے حساب مگر
نہ جانے تیری نگاہوں میں کیسا لگتا ہوں
بچھا رہا ہوں کئی جال ارد گرد ترے
تجھے جکڑنے کی خواہش میں کب سے بیٹھا ہوں
تو برف ہے تو پگھل جائے گا تمازت سے
تو آگ ہے تو میں جھونکا تجھے ہوا کا ہوں
بکھر بھی جائے تو مجھ سے نہ بچ سکے گا کبھی
تجھے سمیٹ کے لفظوں میں باندھ سکتا ہوں
میں یوں بھی ہوں مجھے معلوم ہی نہ تھا نشترؔ
سمجھ رہا تھا بہت نیک ہوں فرشتہ ہوں
غزل
میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں
عبد الرحیم نشتر