EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب نشانہ اس کی اپنی ذات ہے
لڑ رہا ہے اک انوکھی جنگ وہ

عبدالصمد تپشؔ




ہوائے تند کیسی چل پڑی ہے
شجر پر ایک بھی پتا نہیں ہے

عبدالصمد تپشؔ




جفا کے ذکر پہ وہ بد حواس کیسا ہے
ذرا سی بات تھی لیکن اداس کیسا ہے

عبدالصمد تپشؔ




جہاں تک پاؤں میرے جا سکے ہیں
وہیں تک راستہ ٹھہرا ہوا ہے

عبدالصمد تپشؔ




کون پتھر اٹھائے
یہ شجر بے ثمر ہے

عبدالصمد تپشؔ




کوئی کالم نہیں ہے حادثوں پر
بچا کر آج کا اخبار رکھنا

عبدالصمد تپشؔ




کچھ حقائق کے زندہ پیکر ہیں
لفظ میں کیا بیان میں کیا ہے

عبدالصمد تپشؔ