پھینکا تھا ہم پہ جو کبھی اس کو اٹھا کے دیکھ
جو کچھ لہو میں تھا اسی پتھر پہ نقش ہے
آزاد گلاٹی
روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا
کچھ دیئے ایسے جلے ہر سو اندھیرا ہو گیا
آزاد گلاٹی
سال نو آتا ہے تو محفوظ کر لیتا ہوں میں
کچھ پرانے سے کلینڈر ذہن کی دیوار پر
آزاد گلاٹی
سمیٹ لاتا ہوں موتی تمہاری یادوں کے
جو خلوتوں کے سمندر میں ڈوبتا ہوں میں
آزاد گلاٹی
سمیٹ لو مجھے اپنی صدا کے حلقوں میں
میں خامشی کی ہوا سے بکھرنے والا ہوں
آزاد گلاٹی
شاید تم بھی اب نہ مجھے پہچان سکو
اب میں خود کو اپنے جیسا لگتا ہوں
آزاد گلاٹی
تمہیں بھی مجھ میں نہ شاید وہ پہلی بات ملے
خود اپنے واسطے اب کوئی دوسرا ہوں میں
آزاد گلاٹی

