EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

پھینکا تھا ہم پہ جو کبھی اس کو اٹھا کے دیکھ
جو کچھ لہو میں تھا اسی پتھر پہ نقش ہے

آزاد گلاٹی




روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا
کچھ دیئے ایسے جلے ہر سو اندھیرا ہو گیا

آزاد گلاٹی




سال نو آتا ہے تو محفوظ کر لیتا ہوں میں
کچھ پرانے سے کلینڈر ذہن کی دیوار پر

آزاد گلاٹی




سمیٹ لاتا ہوں موتی تمہاری یادوں کے
جو خلوتوں کے سمندر میں ڈوبتا ہوں میں

آزاد گلاٹی




سمیٹ لو مجھے اپنی صدا کے حلقوں میں
میں خامشی کی ہوا سے بکھرنے والا ہوں

آزاد گلاٹی




شاید تم بھی اب نہ مجھے پہچان سکو
اب میں خود کو اپنے جیسا لگتا ہوں

آزاد گلاٹی




تمہیں بھی مجھ میں نہ شاید وہ پہلی بات ملے
خود اپنے واسطے اب کوئی دوسرا ہوں میں

آزاد گلاٹی